السلام علیکم ناظرین گرامی اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری یہ زمین بذات خود بھی اپنے اندر کئی ایک خزانے چھپائے بیٹھی ہیں جو کہ اس دنیا کی معیشت کی ریڑ کی ہڈی تصور ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود حضرت انسان نے بھی گاہے کسی ایسی خوش فہمی کے زیر اثر کہ شاید وہ دوبارہ کبھی اس دنیا میں ا سکیں گے اس زمین کے پیٹ میں کئی ایک خزانے دفن کرنے کا سبب بنے جبکہ اس کے علاوہ بھی کئی
ور ایسے واقعات ملتے ہیں
جو زیر زمین ان مدفون خزانوں کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن اج ہم اپنے ناظرین کو ایک ایسی دنیا کی سیر پر لے کر جا رہے ہیں جہاں پر زیر زمین نہ صرف ہزاروں ٹن سونا دفن ہے بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس مقام کے بارے میں بھی اب رازداری کا کوئی پہلو موجود نہیں لیکن اس کے باوجود ان خزینوں کے متلاشی حضرات کی لا تعداد ٹیمیں اس کو پانے کے لیے جدوجہد کر چکے ہیں مگر اب تک کوئی مرد میدان اس کے راستوں سے واقف ہونے کے باوجود ان تک نہیں پہنچ سکا دوستوں اپ دیکھ رہے ہیں
اردو ڈسکوری کو جس نے اج کے زیر نظر آرٹیکل کے لیے اوک ائی لینڈ کے ایک جزیرے پر موجود ایک ایسے ہی خزانے کی تلاش کی کوشش اور ان کی ناکامی کے اسباب کو اپنا موضوع سخن بنانے کی کوشش کی ہے لیکن ہزاروں ٹن وزنی اس سونے کے بارے میں جاننے سے قبل ہم ہمیشہ کی طرح اپنے نئے شامل ہونے والے دوستوں سے درخواست کریں گے کہ وہ پہلے آرٹیکل شیر کرتے ہوئے کمینٹ میں گود ورک لکھیں . معزز خواتین و حضرات یورپ کی دنیا میں واقع نیلے پانیوں کے اس بستی جس کو عرف عام میں وہ ائیلینڈ کے نام سے پہچانا جاتا ہے ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جہاں سبز پوش میدان اور چھوٹے چھوٹے پہاڑی ٹیلے اس کے حسن میں اور بھی اضافہ کر رہے ہیں
اسی جزیرے پر غائب ایک ایسا کنواں نما گڑھا بھی ہے جہاں پر اڑھائی ہزار سال پہلے ہزاروں ٹن خالص سونے کے خزانے کا انکشاف کیا گیا تھا اور جب اس انکشاف کی تصدیق کے لیے جدید سائنسی الات کی مدد حاصل کی گئی تو دنیا ایک دفعہ چکرا کر رہ گئی کہ واقعی اس جزیرے پر موجود شاہ بلود کے قد اور درخت کے پاس ایک خفیہ کنواں موجود تھا جس میں موجود بڑی مقدار میں سونے کی برقی الات تصدیق کر رہے تھے ناظرین گرامی اس خزانے کی تصدیق کے بعد اگرچہ حکومتی حکمت عملی کے تناظر میں اس کو راز رکھنے کی کوشش کی گئی وہ وعدہ کہ کوئی ٹیم اس کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن بدقسمتی سے یہ راز راز نہ رہ سکا اور کسی صحافی نے اس کی موجودگی پر ایک ارٹیکل لکھ کر خزانوں کے متلاشی لوگوں کے دلوں میں ہلچل مچا دی چنانچہ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ سال 1795 اتوار کی ایک سہانی صبح تین دوست جو کہ خاص طور پر سونے کے کاروبار سے منسلک تھے
اس جزیرے کی طرف خاموشی سے عزم سفر باندھا تاکہ وہ اس کو حاصل کر سکے یہ لوگ اس جزیرے کی پوری تاریخ سے اگاہی کے تناظر میں جانتے تھے کہ یہ جزیرہ جو کہ ماضی قریب میں سمندری کذابوں کی بستی کے طور پر مشہور تھا اور وہاں پر موجود ڈاکو یہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں کو لوٹ لیا کرتے تھے سو ان معلومات نے ان کے اس خیال کو مزید تقویت دی کہ یہ انہی ڈاکوؤں کا دفن کرنا خزانہ ہو سکتا ہے دوستوں اس جزیرے کے بارے میں محکمہ اثار قدیمہ نے جو رپورٹ پیش کی اس کے مطابق ان ڈاکوؤں نے جو کہ شراب کے نشے میں انتہائی زیادہ ڈوبے ہوئے تھے نہ کسی بات پر اشتعال میں اتے ہوئے وہم ایک دوسرے کا قتل کر دیا
جس کی تصدیق اس جزیرے میں ریت کی تہوں میں ملنے والے خنجر اتشی اسلحے اور سونے کے سکے بھی کر رہے تھے الغرض یہ تینوں دوست اس جزیرے پر پہنچے اور وہاں ا کر اس خفیہ خزانے کی تلاش شروع کر دی اور اس کے دوران ان کے ایک ساتھی جس کا نام ٹینی ڈوگم تھا نشہ بلود کے اس درخت کو دیکھ لیا جس کی شاخوں سے بندھے ہوئے رسے زمین کی گہرائیوں میں جا کر غائب ہو رہے تھے اس نے اپنے ساتھیوں کو اس طرف متوجہ کیا اور پھر ان تینوں مہم جیوں نے اس علاقے کی کھدائی شروع کر دی جس کے نیچے اس خزانے کا امکان ہو سکتا تھا لیکن اس کام پر ان کو ایک طویل وقت سرف کرنا پڑا درخت کی شاخوں سے لٹکتے ہوئے رسے انہیں بار بار یہی پیغام دے رہے تھے کہ ان رسوں کی مدد سے کوئی قیمتی دھات زمین کے سینے میں اتاری گئی ہے
لیکن سارا سال کی محنت کے بعد بھی وہ اپنے مشن کی تکمیل میں کامیاب نہ ہو سکے اور اخر کار انہوں نے خزانے کا تذکرہ ڈاکٹر جان لینڈس سے کیا جو کہ نہ صرف اثار قدیمہ کا ماہر تھا بلکہ زیر زمین موجود چھپے ہوئے خزانوں کے بارے میں بھی اس کا علم ات اس کا علم اتھارٹی سمجھا جاتا تھا جس نے یہ ساری رام کہانی سننے کے بعد اس جگہ کا معائنہ کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اپنے تجربات کی روشنی میں اس نے اس کنویں کی مزید کھدائی کا حکم دیا اور جب وہ لوگ مزید 3500 تک زمین کی گہرائی میں پہنچے تو ان پر انکشاف ہوا کہ اس کے نیچے ناریل کے ریشوں کی ایک موٹی موجود ہے جس کی وجہ سے اس کے شک کو اور بھی تقویت ملی اور اس نے مزید کھدائی کا حکم دے دیا
اور جب اس کے ادمی زمین کی مزید 10 فٹ گہرائی میں پہنچے تو ڈاکٹر لینڈس نے دیکھا کہ اس کے نیچے شاہ بلود کی لکڑی کے تختوں کی ایک موٹی طے موجود ہے یہ ساری نشانیاں اس مہم جو کے شک کو یقین میں بدلتی جا رہی تھی اور اس نے جب مزید کھدائی کی تو اس پر کھلا کے نیچے ایک دفعہ پھر ناریل کے ریشوں کی طے اس کا منہ چڑھا رہی ہے ناظرین اتنی کھدائی کرنے کے بعد اب ڈاکٹر نے اپنے مزدوروں کو حکم دیا کہ وہ مزید نیچے جانے کی کوشش کریں مگر محض اٹھ فٹ کی کھدائی کے بعد اس کو ایک ایسا چپٹا پتھر نظر ایا جس پر چند اڑی ترچھی لکیریں کسی منزل گمگشتہ کا پتہ دے رہی تھی مگر ڈاکٹر نے جب اس اجنبی لکھائی کو پڑھنے کی کوشش کی تو اسے اندازہ ہوا کہ شاید خزانہ ابھی 100 فٹ سے بھی زیادہ گہرائی میں موجود ہے لیکن وہ اس موڑ پر بدقسمتی سے اپنا سرمایہ ختم کر چکا تھا مگر دھن کے پکے اس شخص نے بجائے مزید کھدائی کرنے کے لوہے کے ایک برمے سے اس خزانے کا کھوج لگانے کی کوشش کی
اور مزید ایک سو فٹ تک اس کی مدد سے اس نے زمین میں سراخ کیا جو کہ پتھروں اور لکڑی کو چیرتا ہوا اخر کار کسی ایسے مقام سے گزرا جہاں پر خلا یعنی خالی جگہ کا گمان ہوتا تھا اور اب اتنی گہرائی میں جانے کے بعد کنویں سے پانی نکلنا شروع ہو چکا تھا ناظرین محترم ڈاکٹر لینڈس اس خزانے کے حصول کے لیے اپنی اخری کوششوں تک جانے کا فیصلہ کر چکا تھا سو اس نے پانی کے اوپر تک انے کا انتظار کیا اور جب پانی قریب پہنچا تو خوشی سے لینڈس کے حلق سے چیک نکل گئی کیونکہ پانی کی سطح پر لکڑی کے کچھ ٹکڑوں کے ساتھ سونے کے ذرات بھی اپنے ہونے کی گواہی دے رہے تھے جبکہ اس پانی کی سطح پر کاغذ کے چند ٹکڑے بھی ادھر ادھر تیرتے ہوئے نظر ائے
اب ڈاکٹر کے حوصلے مزید بلند ہو چکے تھے اور وہ خود کو منزل کے قریب ترین سمجھ رہا تھا سو اس نے اپنے مزدوروں کو ایک دفعہ پھر حکم دیا کہ وہ اس برمے کو مزید نیچے لے کر چل مگر یہ ایک خوفناک فیصلہ ثابت ہوا کیونکہ جب اس کی مزید کھدائی کی گئی تو پانی اس قدر تیزی سے اوپر ایا کہ اس کے تینوں مزدور بھی اس کنویں میں ڈوب کر رہ گئے جو کہ واقعی ایک تکلیف دہ حادثہ تھا جس نے لینڈس کی کمر توڑ کر رکھ دی اس سارے عمل میں اب تک اس کو نو سال کا عرصہ ہو چکا تھا اور اس کھدائی پر وہ اپنی زندگی بھر کی پونجی بھی خرچ کر چکا تھا لیکن خزانہ اب بھی اس سے کوسوں دور تھا البتہ نو سال کی محنت کے بعد اتنا پتہ چل سکا کہ مذکورہ خزانہ اگرچہ اس کنویں میں موجود ہے
لیکن اس تک پہنچنے کا راستہ اس پانی نے بند کر رکھا ہے وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے مزدوروں کی ہلاکت کے بعد کسی اور اجنبی ادمی کو اپنے اس راز میں شریک کرے اور نہ ہی اس کے پاس مزید کھدائی کے لیے وسائل موجود تھے سو اس نے اس امید پر واپسی کے سفر اختیار کیا کہ اگر ممکن ہوا تو وہ دوبارہ نئے ساتھیوں اور جدید الات کے ساتھ ا کر اپنے اس مشن کی تکمیل کرے گا لیکن اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور وہ اس سے گواہی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ناظرین گرامی اگرچہ اس خزانے کی تلاش ممکن نہ ہو سکی
لیکن چونکہ برقی الات اس جگہ اس پوشیدہ دولت کی موجودگی کی گواہی دے رہے تھے سو 1957 میں ایک امریکی ٹیم اپنا ایک تحقیقاتی مشن لے کر اسی جزیرے پر اتری جس نے بعد از طویل تحقیق جب اپنی رپورٹ مرتب کی تو اس میں لکھا کہ کچھ شک نہیں کہ اس کے نیچے سونے کا ایک بہت بڑا خزانہ موجود ہے لیکن اس کو نکالنا تقریبا ناممکن ہے انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس پانی کو زمین کی اس اتھاہ گہرائی تک پہنچانے کے لیے زیر زمین سرنگوں کا ایک جال بچھایا گیا ہے
اور یہی وجہ ہے کہ مذکورہ ڈاکٹر جب وہاں تک پہنچا تو وہ پانی تیزی سے اوپر ا کر اس کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو گیا جبکہ علاقائی طور پر یہ بات بھی مشہور ہے کہ اس خزانے پر کسی غیبی قوت کا اثر ہے جو اس کی تلاش میں انے والوں کی ناکامی کا سبب بنتا ہے دوستوں آرٹیکل پسند انے کی صورت میں اسے لائک کرتے ہوئے فیس بک اور واٹس ایپ پر اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کیجئے اور کمنٹ باکس میں ہمیں اپنی قیمتی تجاویز سے ضرور اگاہ رکھیے گا اور اپنے پیاروں کا ڈھیر سارا خیال رکھیے اللہ حافظ