ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ان کہی کہانی جو کوئی نہیں چاہتا کہ آپ جانیں۔

Urdu travel
0

السلام علیکم ناظرین اج سے 20 سال پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کیا گیا تھا. اور وہ اج بھی امریکہ کی ایک بدترین جیل ایف ایم سی کاسٹ ویل میں ہے اخر وہ کیا وجہ تھی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کیا گیا اور 86 سال قید کی سزا سنائے گی. اخر انہوں نے ایسا کیا فارمولا تیار کیا تھا جس سے امریکی کی رہائی کے لیے کیا کوششیں کی جا رہی ہیں اور جس کی وجہ سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ جلد رہا ہو جائیں گی اس سب کے بارے میں جاننے کے لیے آرٹیکل کواخر تک ضرور دیکھیے گا ناظرین ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاندان کی بات کریں تو ایک سادہ سا مذہبی اور پڑھا لکھا گھرانہ تھا ان کے والد کا مذہبی تعلیم کی طرف بہت رجحان تھا.






انہوں نے اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیا کی اعلی تعلیم بھی دلوائی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بہت عقلمند اور ذہین تھی ان کو 300 سال میں پیدا ہونے والے ذہین ترین افراد میں شمار کیا جاتا ہے تقاریر کے مقابلوں میں اکثر مرحوم عامر لیاقت بھی ان کے ساتھ ہوتے لڑکوں میں عامر لیاقت انعام جیتے اور لڑکیوں میں عافیہ صدیقی اگر کبھی سب کا ایک ساتھ مقابلہ ہوتا تو عامر لیاقت کہتے کہ وہ دوسری تیسری پوزیشن کے لیے محنت کرتے ہیں کیونکہ پہلی پوزیشن تو عافیہ کی ہی ہو ڈاکٹر عافیہ کے خاندان میں ویسے تو لڑکیوں کی جلدی شادی کر دی جاتی لیکن ان کے بھائی تعلیم کے لیے امریکہ گئے تھے.


 انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کو یونیورسٹی اف ہیوسٹن میں سکالرشپ کے لیے اپلائی کرنے کا مشورہ دیا اس طرح ڈاکٹر عافیہ صدی کی تعلیم حاصل کرنے امریکہ چلی گئی اس کے بعد انہیں ایم ائی ٹی جو کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹی سمجھی جاتی ہے وہاں سے سکالرشپ کی افر ملی وہاں سے انہوں نے پیالوجی میں گریجویشن کیا اور اپنی ریسرچ میں ایوارڈ بھی حاصل کیا اس کے بعد انہوں نے پی ایچ ڈی بھی کی کہا جاتا ہے کہ اپنی تعلیم کے دوران عافیہ صدیقی نے ایک ایسی ریسرچ بھی کی تھی



جو امریکہ کے بڑے بڑے سائنسدان بھی نہیں کر سکے تھے اس ریسرچ کے استعمال کرتے ہوئے کسی بھی ملک کے لیے ایک بہترین دفاعی نظام بنایا جا سکتا تھا یعنی بہت طاقتور ہتھیار بنایا جا سکتے تھے 




امریکہ کے کچھ سائنسدانوں کو اس بات کا پتہ لگا تو انہوں نے امریکی اداروں کو اس بات کی خبر دی کہ ڈاکٹر عافیہ کے پاس ایک بہت ہی اہم ریسرچ ہے جو اگر پاکستان کے ہاتھ لگی تو ہمارا بہت نقصان ہوگا اس طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے وہ ریسرچ حاصل کرنے کے لیے امریکی اداروں نے کوششیں شروع کر دی دوستو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اندازہ تھا کہ اگر یہ ریسرچ امریکہ کے ہاتھ لگ گئی تو وہ ہمیشہ کی طرح اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں گے اسی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے وہ ریسرچ ایک راز کی طرح اپنے پاس رکھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک نہایت ذہین خاتون تھی انہوں نے یہ ذہانت بہترین طریقے سے استعمال کی تھی انہوں نے ایک ایسا پلان تیار کر رکھا تھا کہ جس سے مسلمانوں کو قران کی صحیح معنوں میں تعلیم دی جاتی انہوں نے اپنی پڑھائی کے دوران تعلیمی اداروں میں کچھ ایسی تقاریر بھی کی جس میں انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ اب مسلمانوں کو ایک ساتھ مل کر کھڑے ہونا چاہیے





 کس طرح وہ بچپن سے ہی مسلمانوں کو قران کی تعلیم دلوانا چاہتی تھی ان کا پلان تھا کہ بچے قران پر فوکس کرتے ہوئے دنیاوی تعلیم بھی قران کے ذریعے ہی حاصل کریں وہ بزنس کے اصول قران سے سیکھیں گے انہیں طب قران کے ذریعے سے کھایا جائے گا ایک ملک کو چلانے کے اصول قران اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی سے سکھائے جائیں گے ناظرین 1995 میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی شادی امجد خان سے ہو گئی اور 1994 میں ان کا پہلا بیٹا احمد پیدا ہوا ان کی شادی شدہ زندگی خوشگوار نہیں تھی ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ وہ ان کے گھر ان سے ملنے گئی تو عافیہ کے چہرے پر زخم تھے ان اسٹچز کی ضرورت تھی ان کے بیٹے نے بتایا کہ ابو نے امی کو مارا ہے جب انہوں نے ڈاکٹر عافیہ اور ان کے شوہر سے اس بات کا سوال کیا تو انہوں نے بھی اعتراف کر لیا ڈاکٹر عافیہ کے دو بیٹے احمد اور سلیمان اور ایک بیٹی مریم ہے ان کی شادی کامیاب نہیں ہو سکی اور 2002 میں ان کی طلاق ہو گئی

 


جس کے بعد ان کے سابق شوہر عافیہ پر الزام لگاتے رہے کہ وہ ایک خطرناک خاتون ہے جو دہشت گردی میں ملوث ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود اس نے اپنے بچوں کو مکمل کسٹڈی ڈاکٹر عافیہ کو دے دی یہ بات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان کے سابق شوہر کے لگائے گئے الزامات مکمل جھوٹ تھے کچھ رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کے شوہر امجد امریکہ کی طرف سے کی گئی سازش میں ملوث تھے وہ اس مقصد سے بھیجے گئے تھے کہ ڈاکٹر عافیہ سے ان کی ریسرچ حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن جب کامیاب نہ ہوئے تو ڈاکٹر عافیہ کو طلاق دے دی اور ڈاکٹر عافیہ کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا


 دوستو امریکہ میں 12 سال رہنے کے بعد 2002 میں ڈاکٹر عافیہ اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان واپس ائی 31 مارچ 2003 کے دن کراچی میں ڈاکٹر عافیہ اپنے تین بچوں کے ساتھ ایک ٹیکسی میں سوار ہوں وہ اسلام اباد کی فلائٹ کے لیے ایئرپورٹ جا رہی تھی لیکن راستے میں کچھ لوگوں نے ان چاروں کو روکا اور ٹیکسی سے نکال لیا اگلے پانچ سال یعنی 2008 تک وہ سب غائب رہے 2008 میں امریکی اداروں کی طرف سے ڈاکٹر عافیہ کے گھر والوں سے رابطہ کیا گیا اور ڈاکٹر عافیہ کے بڑے بیٹے احمد کو ڈاکٹر عافیہ کے گھر والوں کے اس کے بعد سے وہ اپنی خالہ ڈاکٹر فوزیہ اور اپنی نانی کے ساتھ رہتا ہے 



اس کے بعد 2010 میں ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر عافیہ کی بیٹی مریم کو ڈاکٹر فوزیہ کے حوالے کر دیا گیا ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان میں بگرام ڈیٹینشن سینٹر میں رکھا گیا تھا 2006 میں معظم بھی کی کتاب اینمی کومٹنٹ کے نام سے ائی معزز انہوں نے اپنی کتاب میں یہ ذکر کیا کہ بگرام جیل میں انہیں ایک عورت کی انتہائی دردناک چیخیں سنائی دیتی تھی وہاں ایک عورت قیدی نمبر 605 اور دی گرے لیڈیا بگرام کے نام سے مشہور ہو گئی تھی کچھ لوگوں نے یہ خیال کیا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ ہی ہو لیکن یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی تھی 2008 میں ڈاکٹر عافیہ کو قید سے رہا کیا گیا اور ان کے پاس ایک بچے کو لے کر گئے جس کے بارے میں کہا کہ یہ اپ کا بیٹا احمد ہے وہاں سے عافیہ اور اس کے بچے کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا




 یہاں سے کہانی کے دو رخ شروع ہوتے ہیں افغانستان کی طرف سے کہانی کہ یہ رخ سنایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو اس کے بچے کے ساتھ گورنر ہاؤس کی طرف جانے کے لیے کہا گیا تھا لیکن وہ گورنر ہاؤس کی طرف جانے کی بجائے مسجد کی طرف گئی اور کمزوری کی وجہ سے گر گئی جبکہ دوسری طرف امریکہ کی طرف سے یہ بیان دیا جاتا ہے کہ ان کے فوجیوں کے پاس یہ خبر تھی کہ ایک دہشت گرد عورت ائے گی جو دیکھنے میں بہت کمزور لگے گی لیکن بہت خطرناک ہے اس کے ساتھ ایک بچہ بھی ہوگا حکم دیا گیا تھا کہ جیسے ہی اس عورت کو دیکھو فورا اسے قتل کر دو تو انہوں نے ان کو دیکھتے ہی شوٹ کر دیا اور قتل کر دیا گیا یہ ایک جھوٹی خبر تھی جو یقینا ان کے گھر والوں اور پاکستانی قوم کے لیے بہت تکلیف دے رہی ڈاکٹر عافیہ پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے امریکہ کے فوجی افسروں پر قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش کی ہے




 جبکہ عینی شاہدین کے مطابق عافیہ اتنی کمزور حالت میں تھی کہ مسجد کی دیوار کے قریب گر گئی تھی دوستوں سوال یہ ہے کہ اس حالت میں انہوں نے فوجی افسروں پر حملہ کیسے کیا یقینا یہ ایک بہت بڑا اور جھوٹا الزام تھا جو ڈاکٹر عافیہ پر لگایا گیا تھا 2010 میں امریکی عدالت میں سماعت ہوئی اور ڈاکٹر عافیہ کو کورٹ میں پیش کیا گیا ان کے دانت ٹوٹے ہوئے تھے بازوں پر زخم تھے اور زنجیروں میں جکڑا گیا تھا وہاں ان کے بھائی بھی موجود تھے لیکن انہیں ڈاکٹر عافیہ سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی اس پیشی کے دوران تمام ثبوت ڈاکٹر عافیہ کے حق میں تھے میڈیکل رپورٹس گواہ تھے کہ ان پر کس قدر تشدد کیا گیا لیکن اس سب کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کو 86 سال کی قید کی سزا سنا دی گئی


 اج ڈاکٹر عافیہ امریکہ کی ایف ایم سی کاسٹ ویل جیل میں ہے جسے جہنم کے گڑھے سے تشبیہ دی جاتی ہے یہ جیل باہر کی دنیا سے مکمل طور پر کٹی ہوئی ہے وہاں ان پر جسمانی تشدد جنسی زیادتی اور ہر طرح کا ظلم کیا جاتا ہے ان کے لیے بھیجے گئے خط بھی واپس کر دیے جاتے ہیں ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے مسلسل کوشش کرتی رہی حال ہی میں ڈاکٹر فوزیہ اور سینٹر مشتاق احمد ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے لیے امریکہ روانہ ہوئے


ڈاکٹر عافیہ کے اغوا کے 20 سال بعد ان کی بہن ان سے ملنے گئی تو ان سے ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کی اجازت بھی نہیں تھی کمرے کے ایک حصے میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ تھی اور دوسری طرف ڈاکٹر فوزیہ سینٹر مشتاق احمد اور ان کے وکیل درمیان میں شیشے کی دیوار تھی اللہ تعالی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو کامیاب کرے اور ہمیں اپنے عظیم لوگوں کی قدر کرنے والا بنا دے امین- 



Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)