لائٹ ہاؤس فلانان جزیرے کا حل نہ ہونے والا اسرار اردو میں-

Urdu travel
0

سٹوڈنٹ سٹارٹ لینڈ میں موجود فلن ائیلینڈز کا ہے جو چھوٹے چھوٹے جزیروں کا ایک مجموعہ ہے 16 دسمبر سن 1900 کے 1 ارکم نام کا ایک جہاز فینن ائیلینڈ کے قریب سے گزر رہا تھا جہاز کے کیپٹن نے دیکھا کہ ائیلینڈ پر موجود لائٹ ہاؤس بند حالت میں ہے جبکہ اصول لائٹ ہاؤس کا فال ہونا لازمی تھا کیپٹن مسائل پر پہنچ کر متعلقہ سب حیران رہ گئے کیونکہ ایک ہفتہ پہلے ہی وہاں تین افراد کو ڈیوٹی کے لیے بھیجا گیا تھا .


ان کے نام تھے تھامس مارشل جیمز ڈاکٹ اور ڈونلڈ میک ارتھک فلی ائرلینڈ کا نام ساتویں صدی کے ایک عارش پادری سینٹ فلین کے نام پر رکھا گیا تھا لیکن اس جزیرے کو ہمیشہ پر اسرار اور خطرناک مانا جاتا رہا یہاں کئی انوکھی باتیں سامنے ا چکی ہیں لائٹ ہاؤس کی خبر سنتے ہیں ایک ریلیف جہاز کو وہاں بھیجا گیا جس میں ضروری سامان بھی شامل تھا اس جہاز کے کیپٹن کا نام چینج ہاروی تھا جیسے ہی وہ جہاز لائٹ ہاؤس کے قریب پہنچا کیپٹن نے دیکھا کہ لائٹ ہاؤس پر کوئی ٹھنڈا نہیں تھا.


لائٹ ہاؤس پر جھنڈا لہرانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہاں عملہ موجود ہے اور سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے یہ صورتحال دیکھ کر کیپٹن نے جہاز کا ہارن بجایا لیکن لائٹ ہاؤس پر کوئی حرکت محسوس نہ ہوئی یہ دیکھ کر انہوں نے جہاز سے اتر کر وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا کیپٹن ہاروی اور ان کے ساتھیوں نے جب سائل پر قدم رکھا تو انہوں نے دیکھا کہ لائٹ ہاؤس کے باہر کچھ سامان بکھرا ہوا تھا جو کہ عام حالت میں لائٹ ہاؤس کے اندر ہونا چاہیے تھا ان چیزوں کی یہ حالت دیکھ کر کیپٹن اور اس کے ساتھیوں نے فوری طور پر لائٹ ہاؤس اور اس کے ارد گرد کے علاقے کی تفتیش شروع کر دی


پورا جزیرہ سنسان اور خاموش تھا صرف سمندر کی لہروں کی اوازیں سنائی دے رہی تھی جب وہ لائٹ ہاؤس کے دروازے تک پہنچے تو دیکھا کہ دونوں مرکزی دروازے اندر سے بند تھے بڑی مشکل کے بعد دروازوں کو کھول کر وہ اندر داخل ہوئے تو اندر کا منظر انتہائی عجیب تھا کھانے کے برتن ٹیبل پر پڑے تھے اور ایسا لگتا تھا جیسے کوئی جلدی میں گیا ایک کرسی گری ہوئی تھی اور کمرے میں موجود گھڑیاں بند تھی ان سب باتوں نے کیپٹن اور اس کے ساتھیوں کو حیرت میں ڈال دیا مزید تفتیش کے دوران انہیں معلوم ہوا کہ لائٹ ہاؤس میں موجود تین افراد کا کوئی سراغ نہیں ملا


باہر نکلتے وقت انہوں نے دیکھا کہ دروازے کے قریب تین اوور کوٹ رکھے ہوئے تھے لیکن ان میں سے بھی سامان غائب تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ دو افراد باہر نکلنے سے پہلے اوور کوٹ پہن کر گئے تھے لیکن تیسرا بغیر کورٹ کے باہر نکلا لائٹ ہاؤس کے اصولوں کے مطابق وہاں ہر وقت کم از کم ایک شخص کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں فوری کاروائی کی جا سکے لیکن یہاں کچھ ایسا ہوا تھا کہ تینوں افراد کو لائٹ ہاؤس چھوڑ کر جانا پڑا یہ سوال کیپٹن اور اس کی ٹیم کے دماغ میں گردش کر رہا تھا کیپٹن ہاروی اور ان کے ساتھیوں نے قریبی علاقوں میں ان تینوں افراد کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کوئی سراغ نہ ملا


اور بالاخر وہ خالی ہاتھ واپس لوٹ ائے گمشدگی کی اطلاع فوری طور پر ناردر لائٹ ہاؤس بورڈ کو دی گئی اور اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی تحقیقات کی ذمہ داری ناردرن لائٹ ہاؤس بورڈ کے سپریٹینڈنٹ رابٹ مور ہیڈ کو دی گئی اس کے بعد سے اس پولیسار کہانی میں نئے راز شامل ہوتے گئے تحقیق کی ابتدائی مرحلے میں رابط موڑ ہیڈ کو لائٹ ہاؤس کا لاک بک ملا لاک بک وہ دستاویز ہوتی ہے جس میں لائٹ ہاؤس کے نگران تمام اہم معلومات بحث کرتے ہیں جیسا کہ موسم کی حالت اور لائٹ ہاؤس کی سرگرمیاں اس لاک بک میں 15 دسمبر کی شام کے بعد کچھ بھی تحریر نہیں تھا جس سے یہ اشارہ ملتا ہے


کہ اس دن کوئی عجیب واقعہ پیش ایا تھا لارڈ بک میں 12 دسمبر کو تھامس مارشل نے لکھا تھا کہ اس دن سمندری لہریں شدید تھی اور وہ اپنی 20 سالہ ملازمت کے دوران ایسی لہریں پہلی بار دیکھ رہے تھے ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ ان کے ساتھ ہی جیمز ڈاکٹ دن بھر خاموش رہے اور پریشان دکھائی دیے ڈونلڈ بگ ارتھر کے بارے میں درج تھا کہ وہ صرف رو رہے تھے اور گھبراہٹ کے شکار تھے یہ تحریر پڑھ کر مورل حیران رہ گئے کیونکہ لائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے یہ تینوں افراد تجربہ کار اور مضبوط اعصاب کے مالک تھے ان کا اس طرح سے گھبرا جانا کسی معمولی بات کا نتیجہ نہیں ہو سکتا تھا 13 دسمبر کو لاک بک میں درج تھا کہ ہوا کا رخ بدل رہا تھا لیکن سمندر بدستور بے چین تھا تحریر سے لگتا تھا


کہ ان تینوں کو کسی غیر معمولی خطرے کا سامنا تھا 15 دسمبر کو اخری اعتراض میں لکھا گیا کہ سمندر اب بھڑک چکا ہے اور ہوا کی شدت بھی تیز ہو گئی ہے لیکن سب سے عجیب بات یہ تھی کہ اس وقت کے دوران لائٹ ہاؤس کے قریب سے گزرنے والے کسی بھی جہاز میں خراب موسم کی کوئی اطلاع نہیں دی اور نہ ہی موسم کے ادارے کو کسی غیر معمولی موسمی حالت کی خبر ملی تھی مزید تحقیقات کے لیے اس پاس کے جزیروں اور دوسرے لائٹ ہاؤسز سے رابطہ بھی کیا گیا لیکن سب نے یہی بتایا کہ موسم بالکل نارمل تھا دوستوں یہ سوال مزید الجھتا گیا کہ صرف ان تین افراد کوئی ایسے پراسرار حالات کا سامنا کیوں کرنا پڑا یہ بھی معلوم ہوا کہ لائٹ ہاؤس کے تمام دروازے اندر سے بند تھے اگر وہ لوگ اندر تھے تو ان کا کوئی سراغ کیوں نہیں ملا اور اگر وہ باہر گئے تو دروازے اندر سے بند کیسے ہوئے ناظرین گرامی یہ سوالات اج تک جواب طلب ہیں


رابٹ مور ہیڈ نے مزید تفصیلات جاننے کے لیے لائٹ ہاؤس کے ہر کونے کی اس کے ہر کونے کی چھان پین کی لیکن وہاں سے کچھ بھی ایسا نہیں ملا جو ان تینوں کی گفشدگی کا اشارہ دے سکے انہوں نے اس پاس کے سمندری علاقوں کی تفتیش بھی کی لیکن نہ تو کوئی لاش ملی اور نہ ہی کسی قسم کے ہاتھ سے کہ کوئی اثار دکھائی دیے یہ واقعہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ تاریخ کے لیے بھی ایک انوکھا میمہ بن گیا بہت سے ماہرین نے مختلف پیش کیا کچھ لوگوں کا ماننا تھا کہ یہ تینوں افراد کسی قدرتی افت جیسے کہ طوفانی لہر یا لینڈ سلائیڈنگ کا شکار ہو گئے ہوں گے لیکن یہ نظریہ اس لیے کمزور ثابت ہوا کیونکہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو کوئی نہ کوئی نشان یا باقیات ضرور ملتے کچھ لوگوں نے اس واقعے کو محفوق الفطرت طاقتوں سے جوڑ دیا انہوں نے کہا کہ فینن ائیلینڈز کے بارے میں پہلے ہی پراستار کہانیاں مشہور تھیں یہ جزیرہ قدیم زمانے میں بدروحوں اور جادوئی مخلوقات کا مسکن سمجھا جاتا تھا کچھ افراد کا دعوی تھا کہ شاید ان تینوں کو ان پراسرار طاقتوں نے اپنے شکار بنا لیا ہے


ایک اور نظریے یہ بھی تھا کہ ان تینوں میں کسی بات پر جھگڑا ہوا ہوگا اور کسی نے دوسرے کو نقصان پہنچا کر خودکشی کر لی ہوگی لیکن اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا یہاں تک کہا گیا کہ شاید یہ لوگ کشتی میں جزیرے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے اور کشتی کسی حادثے کا شکار ہو گئی لیکن جزیرے کے قریب کہیں بھی ایسی کوئی کشتی عمل بند نہیں پایا گیا مورہیڈ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ واقعہ اس تمام کیسز سے مختلف ہے جن کا انہوں نے اپنی زندگی میں سامنا کیا ہے ان کا ماننا تھا کہ شاید حقیقت کبھی معلوم نہ ہو سکے پیارے ساتھیو مور ہیڈ کی رپورٹ کے بعد اس واقعے کو عوامی سطح پر بہت زیادہ توجہ ملی لوگ مختلف کیا سرائیاں کرنے لگے کچھ نے کہا کہ یہ شاید کسی سمندری بلا کا کام ہو سکتا ہے


جو اچانک نمودار ہوئی ہو اور ان تینوں کو اپنے ساتھ لے گئی ہو ایسے خیالات کی بنیاد سمندر کے پراصرار واقعات پر رکھے گئے جن کے بارے میں کئی کہانیاں پہلے سے موجود تھیں دوسری طرف کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ شاید یہ واقعہ کسی دوسرے انسان کے ذریعے انجام دیا گیا لیکن اس نظریے کی تصدیق کے لیے بھی کوئی ثبوت موجود نہیں تھا فلینل ائیلینڈ پر نہ کوئی دوسرا شخص دیکھا گیا اور نہ ہی وہاں کوئی ایسا نشان ملا جو کسی اور کی موجودگی کو ظاہر کرے وقت گزرنے کے ساتھ یہ واقعہ ایک مکمل راز بن کر رہ گیا لائٹ ہاؤس کو دوبارہ فعال کیا گیا اور نئے عملے کو تائنات کر دیا گیا لیکن ان تینوں افراد کی کمشدگی کے بارے میں کوئی اور سوراغ اج تک نہیں مل سکا


اور یہ کہانی اج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے سلیرن ائیلینڈ کا یہ پراصرار واقعہ نہ صرف تاریخ کی ایک عجیب گتھی ہے بلکہ یہ زائر کرتا ہے کہ دنیا میں اب بھی بہت کچھ ایسا ہے جو انسانی عقل اور سمجھ سے بالاتر ہے کئی دستاویزی فلمیں اور کتابیں اس واقعے پر لکھی جا چکی ہیں اور ہر نئی تحقیق کے ساتھ مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں لیکن اس کا کوئی واضح جواب اج تک مل نہیں سکا دوستوں یہ پراسرار واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہماری دنیا میں کئی ایسی کہانیاں ہیں جو ہمیں حیران کرتی ہیں اور ایک ان دیکھے خوف کا احساس دلاتے ہیں جی تو پیارے ساتھیوں یہ تھی ہماری اج  کی سٹوری کسی لگی اپ کو کمنٹس ضرور کریں - 

Tags:

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)