ابراہیم تراورے: افریقہ کا وہ جوان لیڈر جس نے 400 مساجد بنانے سے انکار کر دیا

Urdu travel
0

ایک جوان افریقی لیڈر جس نے دنیا کے سامنے حق کی آواز بلند کی۔ جب پوری دنیا خاموش تھی، ابراہیم تراورے نے انصاف کی بات کی۔ یہ وہی صدر ہے جس نے سعودی عرب کے بادشاہ محمد بن سلمان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ "میرے لوگ پہلے ہی نماز پڑھتے ہیں، ہمیں مزید مساجد کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ واقعی مدد کرنا چاہتے ہیں تو یہ رقم فلسطینی بچوں کو کھانا کھلانے پر خرچ کریں۔"




برکینا فاسو کے حوالے سے تاریخی پس منظر

1960 میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود، برکینا فاسو حقیقی معنوں میں آزاد نہ ہو سکا۔ فرانس نے ملک کی کرنسی، تجارت اور قدرتی وسائل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔ ملک میں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر یہاں تک کہ ایک گولڈ رفائنری بھی موجود نہیں تھی۔ فرانسیسی کمپنیاں سونا نکالتی رہیں مگر مقامی عوام غربت کا شکار رہے۔


2010 کے بعد حالات تیزی سے بگڑے۔ مختلف گروہوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔ 2015 کے انتخابات میں فرانس کی حمایت یافتہ صدر منتخب ہوا مگر عوام کے حالات میں کوئی بہتری نہ آئی۔ بالآخر جنوری 2022 میں فوج نے بغاوت کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔


ابراہیم تراورے کا عروج

صرف آٹھ ماہ بعد، ستمبر 2022 میں ابراہیم تراورے ملک کے نئے لیڈر بن گئے۔ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی فرانس کے ساتھ سیکورٹی معاہدہ ختم کر دیا۔ انہوں نے فرانس کو ایک ماہ کا نوٹس دیا کہ اپنی فوج واپس بلائے ورنہ نتائج بھگتنے ہوں گے۔ حیرت انگیز طور پر فرانس کو اپنی فوجیں واپس بلانا پڑیں۔


اس کے بعد تراورے نے روس کا دورہ کیا۔ روس نے برکینا فاسو کو فوجی تربیت اور ہتھیار فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ چین سے فوجی گاڑیاں اور ترکی سے جدید ڈرونز خریدے گئے۔ ان اقدامات سے ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی۔ 21 لاکھ بے گھر افراد میں سے 3 لاکھ اپنے گھروں کو واپس جا سکے۔


معاشی اصلاحات

تراورے جانتے تھے کہ ملک کے وسائل پر مقامی کنٹرول ضروری ہے۔ 2023 میں ملک کی پہلی گولڈ رفائنری کی بنیاد رکھی گئی۔ غیر ملکی کمپنیوں سے سونے کی کان کنی کے پرمنٹ واپس لینے شروع کیے۔ کچھ کانوں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔


انہوں نے آئی ایم ایف کا 32 ملین ڈالر کا قرضہ لینے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "افریقی ممالک کے پاس سب کچھ ہے، بس خود پر یقین کرنے کی ضرورت ہے۔"


خوراک اور زراعت

جنگوں اور غربت کی وجہ سے ملک میں خوراک کی شدید قلت تھی۔ جنوری 2025 میں روس نے 25 ہزار ٹن گندم عطیہ کے طور پر بھیجا۔ چین سے ہزاروں کی تعداد میں ٹریکٹرز، موٹر پمپس، کھاد اور دیگر زرعی آلات منگوائے گئے۔ انہیں ملک بھر کے کسانوں میں مفت تقسیم کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کسان خود اپنا اناج اگا سکیں اور ملک خوراک کے حوالے سے خود کفیل ہو سکے۔


بجلی اور انفراسٹرکچر

ملک کی 80% آبادی بجلی کی سہولت سے محروم تھی۔ تراورے نے چین کی مدد سے 25 میگاواٹ کا بڑا سولر پاور پلانٹ لگانے کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی روس سے درخواست کی کہ وہ نیوکلیئر پاور پلانٹ لگانے میں مدد کرے۔ روس نے اس پر ہامی بھر لی۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو برکینا فاسو مغربی افریقہ کا دوسرا بڑا ملک بن جائے گا جو نیوکلیئر توانائی سے بجلی پیدا کرے گا۔


سڑکوں کا حال بھی بہت خراب تھا۔ تراورے نے کئی بڑے روڈ پراجیکٹس شروع کیے تاکہ شہروں اور دیہاتوں کو آپس میں جوڑا جا سکے۔ ان کا ماننا تھا کہ "اگر سڑکیں ہوں گی تو تجارت ہو گی، اور اگر تجارت ہو گی تو ترقی یقینی ہے۔"


ابراہیم تراورے کا ویژن

ابراہیم تراورے نے صرف فوجی یا معاشی اصلاحات پر ہی توجہ نہیں دی۔ ان کا ایک جامع منصوبہ ہے جس میں عوام کے روزمرہ کے مسائل کو حل کرنا بھی شامل ہے۔ خوراک، بجلی، روزگار اور حکمرانی سب پر یکساں توجہ دی جا رہی ہے۔


ان کی کہانی یہ سکھاتی ہے کہ اگر نیت صاف ہو، ارادہ پکا ہو اور دل میں اپنی قوم کے لیے درد ہو تو کوئی چیز ناممکن نہیں۔ وہ نہ صرف برکینا فاسو بلکہ پورے افریقہ کے لیے ایک رول ماڈل بن چکے ہیں۔ ان کی قیادت میں افریقہ کے لوگوں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ اب وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے۔ 

Tags:

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں (0)